بے کسی نے گھر بنایا میرے گھر کے سامنے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے کسی نے گھر بنایا میرے گھر کے سامنے  (1923) 
by عبد الہادی وفا

بے کسی نے گھر بنایا میرے گھر کے سامنے
رو رہا ہوں بیٹھ کر دیوار و در کے سامنے

بسکہ نیرنگ تغافل تھا نظر کے سامنے
موت بھی کھوئی گئی کیا بنجر کے سامنے

عبرت واماندگاں ہوں حسرت وارفتگاں
اک طرف بیٹھا ہوا ہوں رہ گزر کے سامنے

شوق رسوائی کو بھی خاکہ اڑانا تھا ضرور
حشر اک تصویر عکسی ہے نظر کے سامنے

بخت بد نے فتنۂ روز جزا کے پردہ میں
آئنہ رکھا جنون بے خبر کے سامنے

عمر بڑھتی ہے فریب آرزو کی یاد میں
آرزو مٹتی ہے اس بیداد گر کے سامنے

ہوں وہ مست شیوۂ ساقی کہ ساغر کی طرح
سینکڑوں میخانے پھرتے ہیں نظر کے سامنے

انتظار شوق کی یہ ناتمامی ہائے ہائے
مر گیا ہوں نامہ دے کر نامہ بر کے سامنے

بخت محنت آزما کی نارسائی ہائے ہائے
مٹ گیا ہوں جادۂ راہ سفر کے سامنے

راہزن کو ڈھونڈھتا ہے شوق آزادی طلب
شکوۂ باد گراں ہے راہبر کے سامنے

آئنے سے کھنچتے ہیں گویا بہت ہی سادے ہیں
وہ نہ ٹھہرے اپنی چشم فتنہ گر کے سامنے

ہاں ابھی بزم خیال غیر سے آیا ہوں میں
تم نہ آنا میرے شوق پردہ در کے سامنے

رہ گزار کاروان آرزو اب مٹ گیا
منزلیں تھیں دل کی پہلو میں جگر کے سامنے

اے وفاؔ قطرہ بھی ہے شامل کمال بحر میں
عیب ہو کر آئے ہم اہل ہنر کے سامنے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A8%DB%92_%DA%A9%D8%B3%DB%8C_%D9%86%DB%92_%DA%AF%DA%BE%D8%B1_%D8%A8%D9%86%D8%A7%DB%8C%D8%A7_%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%92_%DA%AF%DA%BE%D8%B1_%DA%A9%DB%92_%D8%B3%D8%A7%D9%85%D9%86%DB%92