بے نیاز ہر تمنا ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے نیاز ہر تمنا ہو گیا
by منیر بھوپالی

بے نیاز ہر تمنا ہو گیا
عشق میں اب حسن پیدا ہو گیا

درد دل خود ہی مسیحا ہو گیا
مر گیا بیمار اچھا ہو گیا

دل میں کوئی تو ادائے خاص تھی
جلوہ خود محو تماشا ہو گیا

اے نگاہ لطف پردہ چاہیے
سوز دل ساز تمنا ہو گیا

میری خاموشی فسانہ بن گئی
خود لب خاموش گویا ہو گیا

پائمالی میں نہاں تھی زندگی
دل مٹا مٹ کر تمنا ہو گیا

سامنے ہیں اور نظر آتے نہیں
جلوہ خود آنکھوں کا پردہ ہو گیا

اس ادا سے آج اٹھی وہ نظر
میں بھری محفل میں رسوا ہو گیا

مسکرا کر تم نے کیوں دیکھا مجھے
بجلیوں کو اک بہانہ ہو گیا

اس طرح جلوہ دکھاتے ہیں کہیں
ہر تماشائی تماشا ہو گیا

ہو گئی خاموش شمع زندگی
ختم سب دل کا فسانہ ہو گیا

جو گرا دامن پہ آنسو اے منیرؔ
آئنہہ دار تمنا ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse