بیان سن نہ سکا جب کوئی بیاں کی طرح

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بیان سن نہ سکا جب کوئی بیاں کی طرح
by منیر بھوپالی

بیان سن نہ سکا جب کوئی بیاں کی طرح
سنایا حال دل زار داستاں کی طرح

یہ راز عشق ہمیشہ کو راز رہ جاتا
نگاہ کام نہ کرتی اگر زباں کی طرح

کہیں ہے بوئے تمنا گل مراد کہیں
نہال دل کا ہے پھیلاؤ گلستاں کی طرح

کسی کے خندۂ بیجا کا اب نہیں شکوہ
فغاں بھی دل سے نکلتی نہیں فغاں کی طرح

خیال میں ہیں بہاریں نگاہ میں گلشن
گزر رہی ہے قفس میں بھی آشیاں کی طرح

بنی ہے دشمن ہر آرزو وہی حسرت
لگا کے سینے سے رکھتا ہوں اس کو جاں کی طرح

جبین شوق بتائے گی لذت سجدہ
نہ دیر ہے نہ حرم ان کے آستاں کی طرح

زمانہ آج بھی ناواقف حقیقت ہے
کبھی بہار چمن ہوں کبھی خزاں کی طرح

مٹا کے ہستئ دل بھی سکون دل نہ ملا
زمیں ہے سایہ فگن سر پہ آسماں کی طرح

کبھی نہ جھک کے رہیں سر بلندیاں میری
زمیں پہ عمر گزاری ہے آسماں کی طرح

منیرؔ ان کی نظر نے بدل دیا مجھ کو
کہ اب ہنسی بھی جو آتی ہے تو فغاں کی طرح

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse