بہ تسخیر بتاں تسبیح کیوں زاہد پھراتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بہ تسخیر بتاں تسبیح کیوں زاہد پھراتے ہیں
by ولی اللہ محب

بہ تسخیر بتاں تسبیح کیوں زاہد پھراتے ہیں
یہ لوہے کے چنے واللہ عاشق ہی چباتے ہیں

بنی ہے جوں گہر صورت سخن کی اہل معنی سے
یہ ناداں کہنے سننے کو عبث باتیں بناتے ہیں

سدا سے عشق کی لے بھر رہی ہے جن کے کانوں میں
وہ کب سنتے ہیں یہ ناصح جو اپنا راگ گاتے ہیں

بہار آئی نہ چھوٹے ہم قفس سے ہم صفیر اپنے
چمن میں چہچہے کرتے ہیں اور دھومیں مچاتے ہیں

خدا سے دوستی تیری مگر ہم کو ملا دے گی
صنم نا حق ترے ہم روز نکتوڑتے اٹھاتے ہیں

کوئی کیسا ہی روٹھا ہو بلا لیتے ہیں اک پل میں
یہ ظالم خوبرو سمکھ ہو جب آنکھیں لڑاتے ہیں

صبا کس گل کے آنے کی خوشی ایسی ہے گلشن میں
کہ گل جامے میں آج اپنے نہیں پھولے سماتے ہیں

ہنساتے ہیں تجھے ساکن چمن کے کس خوشامد سے
کہ بلبل ہے غزل خواں چٹکیاں غنچے بجاتے ہیں

ہم اپنے دل کی حالت کیا کہیں بن موت مرتے ہیں
تجھے ٹک دیکھ لیتے ہیں تو گویا جان پاتے ہیں

گریباں کا ہمارے ناصحا موقوف کر سینا
کہ ہم سینے کا اپنے زخم کاری کب سلاتے ہیں

امید آنے کی اس عیار کے ہم کو نہیں ہرگز
خیال خام پر اپنی عبث چھاتی پکاتے ہیں

تماشا شیخ جی کے حال کا ہے تحفہ مجلس میں
زنبوری ہیں مرید اور چوک میں بندر نچاتے ہیں

ہم ایسی گولیاں کچی نہیں کھیلے ہیں یہ لڑکے
جو چٹیالے ہوئے ہیں ٹیپ ٹاپ ان کو دکھاتے ہیں

دلوں کے آئنے اب بن گئے ہیں سنگ و آہن کے
کہ مل کر جی میں جگہ دیں بچھڑ کر بھول جاتے ہیں

بہت مارے گئے واں اور بہت زخمی ہوئے تس پر
محبؔ کوچے میں اس کے آج ہم پھر دل جلاتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse