بہت ہی صاف و شفاف آ گیا تقدیر سے کاغذ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بہت ہی صاف و شفاف آ گیا تقدیر سے کاغذ  (1914) 
by پروین ام مشتاق

بہت ہی صاف و شفاف آ گیا تقدیر سے کاغذ
تمہارے واسطے لایا ہوں میں کشمیر سے کاغذ

ہوا ہے ابروئے جاناں سے دل بے تاب صد پارہ
مقابل ہو نہیں سکتا دم شمشیر سے کاغذ

اگر لوہے کے گنبد میں رکھیں گے اقربا ان کو
وہیں پہنچائے گا عاشق کسی تدبیر سے کاغذ

مری قسمت لکھی جاتی تھی جس دن میں اگر ہوتا
اڑا ہی لیتا دست کاتب تقدیر سے کاغذ

بھلا سادہ ورق پر لکھتا کیا رنگیں مزاجوں کو
منقش کر لیا تھا پہلے ہی تقدیر سے کاغذ

کچھ اس خوشبو کی حد بھی ہے معطر ہو گیا بالکل
مرے ہاتھوں میں وصف گیسوئے شب گیر سے کاغذ

عدو کا خط ہے یا تعویذ ہے جو یوں ہے سینہ پر
یہ کیوں رکھا گیا ہے عزت و توقیر سے کاغذ

خط تقدیر سے بہتر میں سمجھوں اس کو دنیا میں
تو لکھوا لائے گر قاصد بت بے پیر سے کاغذ

بتا ظالم مرے قاصد نے تیرا کیا بگاڑا تھا
جو لے کر پھاڑ ڈالا دست بے تقصیر سے کاغذ

مرے ہاتھ آ گیا پرویںؔ عدو کے نام کا خط تھا
گرا تھا رہ میں جو دست بت بے پیر سے کاغذ


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A8%DB%81%D8%AA_%DB%81%DB%8C_%D8%B5%D8%A7%D9%81_%D9%88_%D8%B4%D9%81%D8%A7%D9%81_%D8%A2_%DA%AF%DB%8C%D8%A7_%D8%AA%D9%82%D8%AF%DB%8C%D8%B1_%D8%B3%DB%92_%DA%A9%D8%A7%D8%BA%D8%B0