بہت سے زمیں میں دبائے گئے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بہت سے زمیں میں دبائے گئے ہیں (1914)
by پروین ام مشتاق
308324بہت سے زمیں میں دبائے گئے ہیں1914پروین ام مشتاق

بہت سے زمیں میں دبائے گئے ہیں
بہت ان کے عاشق جلائے گئے ہیں

ہمیشہ سے عاشق ستائے گئے ہیں
ہمیں کیا نئے یاں جلائے گئے ہیں

اندھیرا نہ ہونے دیا وصل کی شب
وہ شمعوں پہ شمعیں جلائے گئے ہیں

نہیں بے سبب ان کو مجھ سے رکاوٹ
بہت ہی سکھائے پڑھائے گئے ہیں

نہیں وصل کی ان سے فرمائش آساں
بہت منہ بگاڑے بنائے گئے ہیں

اداؤں کے ناموں کے غمزوں کے مجھ پر
بہت چور پہرے بٹھائے گئے ہیں

نگاہوں کی چھریاں اداؤں کے خنجر
بہت میرے دل پر لگائے گئے ہیں

لڑایا ہے شہ دے کے لوگوں نے ہم کو
بہت روز نقشے جمائے گئے ہیں

میں نالاں نہ تھا تیرے جور و جفا سے
زمانہ کے دل کیوں دکھائے گئے ہیں

دل و دیدہ دو گھر ہیں تشریف لائیں
سنوارے گئے ہیں سجائے گئے ہیں

یہ دنیا ہے اس میں ہمیشہ سے انساں
بگاڑے گئے ہیں بنائے گئے ہیں

بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
کہ مٹی سے ہم تم بنائے گئے ہیں

زمیں سے ہی آئے زمیں ہی میں جانا
اسی سے بگاڑے بنائے گئے ہیں

ہمیں پر نہیں ظلم دنیا میں پرویںؔ
بہت لوگ یاں آزمائے گئے ہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A8%DB%81%D8%AA_%D8%B3%DB%92_%D8%B2%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%AF%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%92_%DA%AF%D8%A6%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA