بھول کر پہلوئے امید میں آیا نہ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھول کر پہلوئے امید میں آیا نہ گیا  (1923) 
by عبد الہادی وفا

بھول کر پہلوئے امید میں آیا نہ گیا
جو پتا ہم کو بتایا تھا وہ پایا نہ گیا

قلم انداز فنا ہوں مری وقعت دیکھو
میں ہوں وہ حرف مکرر جو مٹایا نہ گیا

اس تکلف پہ کہاں لطف ہم آغوشی کا
آپ سے پہلوئے تصویر میں آیا نہ گیا

وہ ادا اور تھی یہ اور ہے پھر اور سہی
بے نیازی سے کوئی رنگ جمایا نہ گیا

اس رکاوٹ میں بھی نیرنگ دل آویزی ہے
روٹھ جانے کی ہے خوبی کہ منایا نہ گیا

دے دیا طاق سے آئینہ اٹھا کر ان کو
حال مجھ سے دل حیراں کا دکھایا نہ گیا

ورق حشر لگایا ہے عدم کے پیچھے
جب مرا حال خموشی سے جتایا نہ گیا

ربط و بے ربطیٔ انفاس سے کچھ بھی نہ ہوا
یہ غبار غم دل تھا کہ اڑایا نہ گیا

بیکس ہائے تمنا سے حیا آنے لگی
تیری تصویر کو سینہ سے لگایا نہ گیا

دیکھنا چرخ جفا کار کی مجبوری کو
اس طرح ہم کو گرایا کہ اٹھایا نہ گیا

اے وفاؔ آرزوئے مرگ نے جی چھوڑ دیا
دست احباب سے اب زہر بھی کھایا نہ گیا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%84_%DA%A9%D8%B1_%D9%BE%DB%81%D9%84%D9%88%D8%A6%DB%92_%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%AF_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%A2%DB%8C%D8%A7_%D9%86%DB%81_%DA%AF%DB%8C%D8%A7