Jump to content

بتا تو دل کے بچانے کی کوئی راہ بھی ہے

From Wikisource
بتا تو دل کے بچانے کی کوئی راہ بھی ہے (1905)
by مرزا آسمان جاہ انجم
317525بتا تو دل کے بچانے کی کوئی راہ بھی ہے1905مرزا آسمان جاہ انجم

بتا تو دل کے بچانے کی کوئی راہ بھی ہے
تری نگاہ کی ناوک فگن پناہ بھی ہے

سزا کے واسطے اقرار بھی گناہ بھی ہے
اور ایک تم سا کوئی دوسرا گواہ بھی ہے

خدا کا گھر بھی ہے دل میں بتوں کی چاہ بھی ہے
صنم کدہ بھی ہے دل اپنا خانقاہ بھی ہے

عجیب حال ہے دنیا پرست لوگوں کا
معاد کا بھی خیال اور فکر جاہ بھی ہے

الٰہی خضر کہوں عشق کو کہ غول طریق
کہ راہ بر بھی یہ ہے اور سد راہ بھی ہے

اسی پہ مرتے ہیں ہم اور اسی کو چاہتے ہیں
وہی ہے عالم و دانا وہی گواہ بھی ہے

گلے سے آ کے لپٹ جا خدا کو مان او بت
ہے آج تجھ پہ بھی جوبن عروج ماہ بھی ہے

مراد تجھ سے نہ مانگوں تو کس سے مانگوں میں
ٹکڑ گدا ترے در کا گدا بھی شاہ بھی ہے

اگرچہ دل سے ہوں بندہ بتوں کا میں لیکن
زباں پہ کلمۂ تحریم لاالٰہ بھی ہے

گناہ بخش دے انجمؔ کے اے رحیم و کریم
کہ پر گناہ بھی ہے اور عذر خواہ بھی ہے

دکھائے گا کسے محشر میں اپنا منہ انجمؔ
سیاہ کار بھی ہے اور رو سیاہ بھی ہے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A8%D8%AA%D8%A7_%D8%AA%D9%88_%D8%AF%D9%84_%DA%A9%DB%92_%D8%A8%DA%86%D8%A7%D9%86%DB%92_%DA%A9%DB%8C_%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C_%D8%B1%D8%A7%DB%81_%D8%A8%DA%BE%DB%8C_%DB%81%DB%92