بازی پہ دل لگا ہے کوئی دل لگی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بازی پہ دل لگا ہے کوئی دل لگی نہیں  (1914) 
by پروین ام مشتاق

بازی پہ دل لگا ہے کوئی دل لگی نہیں
یہ بھی ہے کوئی بات کبھی ہاں کبھی نہیں

جس نے کچھ احتیاط جوانی میں کی نہیں
عقل سلیم کہتی ہے وہ آدمی نہیں

دل مانگو تو جواب ہے ان کا ابھی نہیں
گویا ابھی نہیں کا ہے مطلب کبھی نہیں

واعظ کو لعن طعن کی فرصت ہے کس طرح
پوری ابھی خدا کی طرف لو لگی نہیں

عاشق پر ان کا ایک ذرا سا ہے التفات
اور وہ بھی اس طرح کہ کبھی ہے کبھی نہیں

جیسا کہ آپ چاہتے ہیں شخص پاک و صاف
ایسا تو شہر بھر میں کوئی متقی نہیں

تنہا جیے تو خاک جیے لطف کیا لیا
اے خضر یہ تو زندگی میں زندگی نہیں

ہم سب ہیں راہگیر تصادم کا کیا سبب
دنیا ہے شاہراہ کچھ ایسی گلی نہیں

دل میں نشاط آئے تو چہرہ ہو تابناک
جب تک جناب چاند نہیں چاندنی نہیں

پرویںؔ جلاؤ شمع عمل گور کے لئے
سورج کا نور چاند کے وہاں چاندنی نہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%B2%DB%8C_%D9%BE%DB%81_%D8%AF%D9%84_%D9%84%DA%AF%D8%A7_%DB%81%DB%92_%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C_%D8%AF%D9%84_%D9%84%DA%AF%DB%8C_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA