اے ہم نفس اس زلف کے افسانے کو مت چھیڑ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے ہم نفس اس زلف کے افسانے کو مت چھیڑ
by ولی اللہ محب

اے ہم نفس اس زلف کے افسانے کو مت چھیڑ
بس سلسلہ جنباں نہ ہو دیوانے کو مت چھیڑ

جس رنگ سے ہے دل میں مرے عشق رخ یار
ناصح نہ ہو دیوانہ پری خانے کو مت چھیڑ

وہ شمع مجالس تو ہے فانوس میں روشن
اے عشق تو مجھ سوختہ پروانے کو مت چھیڑ

تو آپ ہے پیماں شکن اس دور میں ساقی
کہتا ہے مجھے بزم میں پیمانے کو مت چھیڑ

تروار سے کیا ہم کو ڈراتا ہے میاں جا
یاں آپ سے موجود ہیں مر جانے کو مت چھیڑ

ہمدم نہ کہہ اس وقت کہ بوسے کی طلب کر
مجلس میں مجھے گالیاں دلوانے کو مت چھیڑ

منظور اگر چھیڑ ہنسی کی ہے تو پیارے
ہوتے محبؔ اپنے کے تو بیگانے کو مت چھیڑ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse