اگرچہ دل کو لے ساتھ اپنے آیا اشک مرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگرچہ دل کو لے ساتھ اپنے آیا اشک مرا
by باقر آگاہ ویلوری

اگرچہ دل کو لے ساتھ اپنے آیا اشک مرا
نگاہ میں تری ہرگز نہ بھایا اشک مرا

میں تیرے ہجر میں جینے سے ہو گیا تھا اداس
پہ گرم جوشی سے کیا کیا منایا اشک مرا

حذر ضروری ہے اے سرو ناز اس سے تجھے
کہ آبشار مژہ کو بہایا اشک مرا

ہوا ہے کون سے خورشید رو سے گرم اتنا
کہ میرے دل کو جو ایسا جلایا اشک مرا

برنگ غنچۂ افسردہ ہو گیا تھا یہ دل
سو ویسے مردہ کو پل میں جلایا اشک مرا

ہوا وہ جب نظر انداز یار کا آگاہؔ
مجھے یہ بے اثری پر ہنسایا اشک مرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse