اک غیر کہ محفل سے اٹھایا نہیں جاتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اک غیر کہ محفل سے اٹھایا نہیں جاتا  (1930) 
by نشتر چھپروی

اک غیر کہ محفل سے اٹھایا نہیں جاتا
اک میں کہ کبھی ساتھ بٹھایا نہیں جاتا

سننے کو تو راضی ہیں وہ حال دل بیتاب
افسوس مجھی سے یہ سنایا نہیں جاتا

اس ضعف و نقاہت کا برا ہو کہ شب وصل
وہ پاس ہیں اور ہاتھ لگایا نہیں جاتا

تم دیکھ کے مجھ کو تو گرا دیتے تھے پردہ
منہ سامنے غیروں کے چھپایا نہیں جاتا

جس روز سے اغیار نے بھڑکایا ہے ان کو
میں بزم میں اس دن سے بلایا نہیں جاتا

خط غیر کا بھیجا ہے مجھے یار نے قاصد
قسمت کا لکھا سچ ہے مٹایا نہیں جاتا

غم دوست وہ ہوں میری تسلی نہیں ہوتی
جب تک کہ میں جی بھر کے ستایا نہیں جاتا

لے لے کے مرا نام دیا کرتے ہیں گالی
میں دل سے کبھی ان کو بھلایا نہیں جاتا

آنکھیں تو ملاتے ہیں غضب ناک وہ ہو کر
افسوس ہے دل ان سے ملایا نہیں جاتا

اب ضبط فغاں کا نہیں یارا مجھے ہرگز
راز دل بیتاب چھپایا نہیں جاتا

اللہ ر نزاکت کہ مرے قتل پہ نشترؔ
اس شوخ سے خنجر بھی اٹھایا نہیں جاتا

This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse