ان کی باتوں کو کچھ قیام نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کی باتوں کو کچھ قیام نہیں  (1930) 
by نشتر چھپروی

ان کی باتوں کو کچھ قیام نہیں
صبح کہتے ہیں ہاں تو شام نہیں

ذکر دشمن پہ کیوں بگڑتے ہو
مہرباں آپ کا تو نام نہیں

مجھ کو کمبخت کیوں کہو ہر دم
میری جاں یہ تو میرا نام نہیں

برہمن ہم ہوئے مسلماں سے
اب بھی کافر تو ہوگا رام نہیں

در پہ ہے پاسبان میرے لئے
غیر جائے تو روک تھام نہیں

غیر پر خم کے خم لنڈھاتے ہو
میرے حصے کا کوئی جام نہیں

مست ہو کر وہ شیخ کا کہنا
مفت کی ہو تو مے حرام نہیں

جب کہا تم عدو پہ مرتے ہو
بولے اس میں کوئی کلام نہیں

غیر کیوں جا رہے ہیں مقتل کو
امتحاں میرا قتل عام نہیں

بس تمہارا غلام ہو کے رہوں
چاہئے مجھ کو اور نام نہیں

مست رکھتی ہے چشم مست اس کی
مجھ کو اب آرزوئے جام نہیں

ہنس پڑے ذکر وصل دشمن پر
یعنی میرا خیال خام نہیں

عید کا دن ہے پی بھی لے اک جام
اب تو زاہد مہ صیام نہیں

تیری عیاریاں سمجھتا ہوں
تجھ کو اور دشمنوں سے کام نہیں

کم ہے کب روز ہجر سے شب غم
صبح اس کی تو اس کی شام نہیں

غیر ہی فیضیاب رہتا ہے
مہربانی تمہاری عام نہیں

ایک چپ سی لگی ہے نشترؔ کو
جب سے وہ شوخ ہم کلام نہیں

This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse