امید مہر پر اک حسرت دل ہم بھی رکھتے تھے
امید مہر پر اک حسرت دل ہم بھی رکھتے تھے
تمنا وصل کی اے ماہ کامل ہم بھی رکھتے تھے
کبھی گل زار داغ عشق سے دل ہم بھی رکھتے ہے
کبھی اک تازہ گلشن اے عنادل ہم بھی رکھتے تھے
کسی دن تو وہ بحر حسن آ کر زیب بر ہوتا
کہ آغوش تمنا شکل ساحل ہم بھی رکھتے تھے
الگ تو بزم سے اٹھ کر جو سن لیتا تو کہہ دیتے
کہ کچھ کچھ التجا اے زیب محفل ہم بھی رکھتے تھے
ہمیں بے موت کیوں مارا اجل تو کس لیے آئی
ہوائے بوسۂ شمشیر قاتل ہم بھی رکھتے تھے
ہمارے دل کا عقدہ کیوں نہ اے غنچہ دہن کھولا
ہوس بوسے کی تھی تھوڑی سی مشکل ہم بھی رکھتے تھے
کریں اب کیا کہاں ڈھونڈھیں گنوایا کوئے گیسو میں
کبھی یادش بخیر اے ہمدمو دل ہم بھی رکھتے تھے
ہمارا امتحاں او قدر انداز لازم تھا
دل مجروح و مضطر جان بسمل ہم بھی رکھتے تھے
کیا پامال اس کو کیوں نہ تم نے ساتھ سبزے کے
تمہارے زیر پا اے جان جاں دل ہم بھی رکھتے تھے
نہیں اب کثرت داغ جنوں سے لائق ہدیہ
کبھی دل پیشکش کرنے کے قابل ہم بھی رکھتے تھے
حقارت سے نہ دیکھو آج ہم کو اے پری رویو
کبھی تم سا کوئی زہرہ شمائل ہم بھی رکھتے تھے
عجب ہے کیا ہوئی الفت وہ اے جاں دونوں جانب کی
یہی دل تم بھی رکھتے تھے یہی دل ہم بھی رکھتے تھے
یونہی شب بھر جلا کرتے تھے یاد شعلۂ رخ میں
یہی سوزش کبھی اے شمع محفل ہم بھی رکھتے تھے
لب جاں بخش پر کیا فوق دیتے چشم فتاں کو
کہ انجمؔ کچھ تمیز حق و باطل ہم بھی رکھتے تھے
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |