اشک باری کا مری آنکھوں نے یہ باندھا ہے جھاڑ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اشک باری کا مری آنکھوں نے یہ باندھا ہے جھاڑ
by ولی اللہ محب

اشک باری کا مری آنکھوں نے یہ باندھا ہے جھاڑ
ڈوبتے دکھلائی دیں ہیں تا کمر سارے پہاڑ

غیر کو تو نے اشارت کی چرا کر ہم سے آنکھ
ہم بھی اک عیار ہیں پیارے گئے فی الفور تاڑ

مجھ کو کیا بے خود کیا ساقی کی چشم مست نے
اک نگاہ تند سے اس نے صفیں ڈالیں پچھاڑ

ان کو پھر شور قیامت بھی اٹھا سکتا نہیں
مرد راہ عشق میں جو بیٹھتے ہیں پاؤں گاڑ

ہم تو مایوس رہائی اس برس ہیں ہم صفیر
بال و پر صیاد نے ڈالے قفس میں سب اکھاڑ

جب تلک دل میں نہ ہو اک شخص کی الفت کو راہ
کھولنا بے فائدہ ہے دیکھ اسے گھر کے کواڑ

وہ جو لیلیٰ ہے مرے دل میں سنے اس کا جو شور
قیس نکلے گور سے باہر کفن کو چیر پھاڑ

شیخ مے خانہ کی مت چل راہ مے خواروں سے ڈر
مل کے دو بد مست دیں گے آپ کی سج واں بگاڑ

یاں نفس میں کرتے ہیں اپنی پر افشانی کی سیر
فارغ البال اب ہیں گل چینی سے ہم دامن کو جھاڑ

پردۂ مینا میں رکھتی ہے سبھوں سے تاک جھانک
دختر رز سے نہیں دیکھی کوئی گجھی کھلاڑ

سوکھ کر ہر استخواں جوں نے ہے اس کے عشق میں
سچ ہے جو مطرب پسر کا اٹھتا ہے سینے میں ہاڑ

چاندنی میں جب وہ نو خط نیمچہ لے ہاتھ میں
ماہ اس کو دیکھ لینے کی سپر لے منہ پہ آڑ

اپنے رہنے کو جو تو چاہے سو کر ان میں پسند
دو مکاں دنیا میں ہیں آباد اک اور اک اجاڑ

میکدے میں مست ہیں اور شور ان کا ہاؤ ہو
مدرسے میں شیخ ہیں اور وائے ویلا توبہ دہاڑ

شکل مہ اس مہروش بن اپنی نظروں میں محبؔ
ہے یہ کچھ پر دود جوں جھکتا ہے بھڑبھونجے کا بھاڑ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse