اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے  (1905) 
by مرزا آسمان جاہ انجم

اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے
دم مرا سینے میں رکنے لگا آتے جاتے

خاک میں مجھ کو جو تم نے نہ ملایا نہ سہی
لاش ہی میری ٹھکانے سے لگاتے جاتے

تیرے دیوانوں کا دیکھے تو کوئی جوش و خروش
سوئے محشر بھی ہیں اک شور مچاتے جاتے

ہم تو سمجھے تھے کہ نالوں سے تسلی ہوگی
یہ تو ہیں درد میں درد اور بڑھاتے جاتے

ساتھ لینا تھا ہمیں بھی تجھے او پیک صبا
ہم بھی ہمراہ ترے ٹھوکریں کھاتے جاتے

تم نے کاندھا نہ دیا لاش کو میری نہ سہی
ایک ٹھوکر ہی مری جان لگاتے جاتے

یوں نہ جانا تھا انہیں پاس سے اٹھ کر انجمؔ
کوئی آفت ہی مرے سر پہ وہ ڈھاتے جاتے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A7%D8%B3_%D9%86%DB%92_%D8%A2%D9%86%DB%92_%DA%A9%D8%A7_%D8%AC%D9%88_%D9%88%D8%B9%D8%AF%DB%81_%DA%A9%DB%8C%D8%A7_%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%92_%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%92