اس ستم گار نے سیکھا ہے خفا ہو جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس ستم گار نے سیکھا ہے خفا ہو جانا  (1933) 
by ناصری لکھنوی

اس ستم گار نے سیکھا ہے خفا ہو جانا
کیا قیامت ہوا نالوں کا رسا ہو جانا

نزع میں بڑھ کے کھٹک دل سے یہی کہتی ہے
آج تو درد کا ممکن ہے دوا ہو جانا

لے کے پیغام قضا باد بہاری آئی
نا مبارک ہوا زخموں کا ہرا ہو جانا

عرش تھرائے گا اغیار کے دل ٹوٹیں گے
نالہ کرتا ہوں مگر تم نہ خفا ہو جانا

دم نکلنا ہے یہی جان کا جانا ہے یہی
دل کا آساں نہیں پہلو سے جدا ہو جانا

پس مردن بھی رہے خانۂ زنجیر میں پاؤں
اس طرح چاہیے پابند وفا ہو جانا

زلزلے آ کے زمانے کو خبر دیتے ہیں
نہیں ممکن تپش دل کا فنا ہو جانا

جان لے جائے گا اور درد بڑھا جائے گا
ہاتھ تیرا مرے سینے سے جدا ہو جانا

ابھی بیٹھے رہو میں دیکھ رہا ہوں تم کو
نزع کے وقت گلے مل کے جدا ہو جانا

سمجھو کس درجہ ہے سوز غم الفت دشوار
دیکھ پروانوں کا جل جل کے فنا ہو جانا

زہر بھر دیتا ہے زخموں میں دل وحشی کے
فصل باراں میں بیاباں کا ہرا ہو جانا

ناصریؔ پھر وہی ہم ہیں وہی شوریدہ سری
پھر وہی حاضر بزم شعرا ہو جانا

This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse