اس بت نے گلابی جو اٹھا منہ سے لگائی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس بت نے گلابی جو اٹھا منہ سے لگائی
by ولی اللہ محب

اس بت نے گلابی جو اٹھا منہ سے لگائی
شیشے میں عجب آن سے جھمکے تھی خدائی

عالم میں نشے کے شب مہتاب نے تیرے
خورشید سے مکھڑے نے طلسمات دکھائی

گو غیر سے ملنے کی قسم کھاتے ہو پیارے
چھپتی نہیں وہ بات جو ہو دل سے بنائی

واللہ ہمیں عشق کی سب بھول ہوئی چال
کافر تری رفتار نے پھر یاد دلائی

ہر دم تو بھرا شیشہ جھکاتا ہے نشہ میں
ڈرتا ہوں کہ تیری نہ مڑک جائے کلائی

آئینہ نمو پوش ہوا عشق میں تیرے
چار ابروؤں کی لے کے فقیرانہ صفائی

ہم جھوٹ کہیں تو نہ ہو دیدار خدا کا
ہے روز قیامت تری اک شب کی جدائی

عاشق کو محبؔ سلطنت ہر دو جہاں ہے
گر یار کے کوچہ کی میسر ہو گدائی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse