ادھر تو ہم جان کھو رہے ہیں ادھر وہ الفت سے رو رہے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ادھر تو ہم جان کھو رہے ہیں ادھر وہ الفت سے رو رہے ہیں (1902)
by میر محمد سلطان عاقل
304444ادھر تو ہم جان کھو رہے ہیں ادھر وہ الفت سے رو رہے ہیں1902میر محمد سلطان عاقل

ادھر تو ہم جان کھو رہے ہیں ادھر وہ الفت سے رو رہے ہیں
کدورتیں عمر بھر کی دل سے وہ آج اشکوں میں دھو رہے ہیں

نہ باز رکھ ہم کو رونے سے تو گریں جو اشکوں کے دانے بہتر
یہ کشت حسرت میں اپنی ہمدم امید کا تخم بو رہے ہیں

ادھر ترقی خیال کو ہے ادھر ترقی جمال کو ہے
وہاں تو مد نظر ہے سرمہ یہاں تصور میں رو رہے ہیں

جہاں ہوا طفل کوئی پیدا کہا یہ ماں نے ابوالبشر کی
مری بھی آغوش ہے کشادہ عبث یہ سامان ہو رہے ہیں

کیا ہے بے جرم قتل مجھ کو ہجوم اغیار و آشنا میں
اور اس پہ دیکھو ڈھٹائی اشکوں سے دامن اپنا بھگو رہے ہیں

نہ پوچھو کچھ معصیت کا عالم فرشتو ہم کیا کہ تم نے بچتے
حقیقت اس کی انہیں سے پوچھو سرائے دنیا میں جو رہے ہیں

خبر وصال عدو کی سن کر وصال کے معنی سوچتے ہیں
انہیں کو واں کچھ نہیں ہے شادی کہ خوش یہاں ہم بھی ہو رہے ہیں

گلہ عبث ان سے کیجے عاقلؔ کیا ہے قسمت نے ان کو غافل
جو در پہ جا کر پکارا میں نے تو بولے کہہ دو کہ سو رہے ہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A7%D8%AF%DA%BE%D8%B1_%D8%AA%D9%88_%DB%81%D9%85_%D8%AC%D8%A7%D9%86_%DA%A9%DA%BE%D9%88_%D8%B1%DB%81%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA_%D8%A7%D8%AF%DA%BE%D8%B1_%D9%88%DB%81_%D8%A7%D9%84%D9%81%D8%AA_%D8%B3%DB%92_%D8%B1%D9%88_%D8%B1%DB%81%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA