ادب سے شکوۂ غم ہو رہا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ادب سے شکوۂ غم ہو رہا ہے
by منیر بھوپالی

ادب سے شکوۂ غم ہو رہا ہے
زباں خاموش ہے دل رو رہا ہے

جگر بیتاب ہے دل رو رہا ہے
تمناؤں کا ماتم ہو رہا ہے

زمانہ لاکھ دے چھینٹے پہ چھینٹے
میں کیا جاگوں مقدر سو رہا ہے

سمجھتا ہے وہ جنت کی حقیقت
تری محفل میں دم بھر جو رہا ہے

جبیں اپنی کسی کا آستاں ہے
مقدر اب مقدر ہو رہا ہے

دل نا فہم یہ آنسو نہیں ہیں
بڑے نایاب موتی کھو رہا ہے

محبت ریز فطرت بن رہی ہے
قیامت خیز عالم ہو رہا ہے

نیا انداز ہے عذر ستم کا
مجھی سے میرا شکوہ ہو رہا ہے

شب غم اور سکون قلب مضطر
مجھے کچھ اور ہی شک ہو رہا ہے

یہاں تک راز دل ہم نے چھپایا
زمانہ میں فسانہ ہو رہا ہے

الٰہی شان ستاری کا صدقہ
شمار معصیت کیوں ہو رہا ہے

انہی آنکھوں میں جنت بس رہی ہے
انہی آنکھوں میں محشر سو رہا ہے

دبے پاؤں گزر جائے قیامت
کوئی برسوں کا جاگا سو رہا ہے

یہ درد دل منیرؔ ان کا کرم ہے
مقام شکر ہے تو رو رہا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse