اب کوئی ترا مثل نہیں ناز و ادا میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب کوئی ترا مثل نہیں ناز و ادا میں  (1914) 
by پروین ام مشتاق

اب کوئی ترا مثل نہیں ناز و ادا میں
انداز میں شوخی میں شرارت میں حیا میں

مغرور سے سرکش متواضع پہ ہوں قرباں
مٹی میں تو مٹی ہوں ہوا ہوں میں ہوا میں

کیا خوب وہ خود کرتے ہیں یوں اپنی ستائش
آفت ہوں جلانے میں قیامت ہوں جفا میں

غیرت نہیں آتی تمہیں ہر بات میں بیٹھے
الفت میں محبت میں مروت میں وفا میں

جب ہو دم آخر تو بچا لینے کی طاقت
پھر خاک شفا میں نہ کہیں آب بقا میں

وہ چاہے تو سب کچھ ہے نہ چاہے تو نہیں کچھ
تعویذ میں گنڈے میں فتیلہ میں دعا میں

اک ادنیٰ سا پردہ ہے اک ادنیٰ سا تفاوت
مخلوق میں معبود میں بندہ میں خدا میں

سرخی کے سبب خوب کھلا ہے گل لالہ
عارض میں لبوں میں کف دست و کف پا میں

عشاق کی خوں ریزی سے کیا فائدہ ظالم
مشغول ہو لاکھے میں تو مصروف حنا میں

عاشق تو ہمیشہ ہے محبت کی بدولت
الزام میں تقصیر میں عصیاں میں خطا میں

ہم بھی تھے کبھی خوبیٔ تقدیر سے پرویںؔ
عرفات میں مزدلفہ میں مکہ میں منا میں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A7%D8%A8_%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C_%D8%AA%D8%B1%D8%A7_%D9%85%D8%AB%D9%84_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA_%D9%86%D8%A7%D8%B2_%D9%88_%D8%A7%D8%AF%D8%A7_%D9%85%DB%8C%DA%BA