آج مہندی لگائے بیٹھے ہیں
Appearance
آج مہندی لگائے بیٹھے ہیں
خوب وہ رنگ لائے بیٹھے ہیں
میرے آتے ہی ہو گئے برہم
کچھ کسی کے سکھائے بیٹھے ہیں
تیغ کھینچی ہے قتل پر میرے
ہاتھ مجھ سے اٹھائے بیٹھے ہیں
میں شکایت جفا کی کرتا ہوں
چپکے وہ سر جھکائے بیٹھے ہیں
دم چرائے ہوئے پڑے ہیں ہم
وہ جو بالیں پہ آئے بیٹھے ہیں
امتحاں کو کہا تو بولے وہ
ہم تمہیں آزمائے بیٹھے ہیں
کس کو نظروں سے آج اتاریں گے
کیوں وہ تیوری چڑھائے بیٹھے ہیں
دیکھیے کب وہ شمع رو آئے
شام سے لو لگائے بیٹھے ہیں
ٹالنا وصل کا جو ہے منظور
خود سے خود منہ تھوتھائے بیٹھے ہیں
سادہ پن میں ہزار جوبن ہے
بال کھولے نہائے بیٹھے ہیں
کون پہلو سے اٹھ گیا انجمؔ
آپ کیوں دل دبائے بیٹھے ہیں
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |