Jump to content

آج مہندی لگائے بیٹھے ہیں

From Wikisource
آج مہندی لگائے بیٹھے ہیں (1905)
by مرزا آسمان جاہ انجم
317479آج مہندی لگائے بیٹھے ہیں1905مرزا آسمان جاہ انجم

آج مہندی لگائے بیٹھے ہیں
خوب وہ رنگ لائے بیٹھے ہیں

میرے آتے ہی ہو گئے برہم
کچھ کسی کے سکھائے بیٹھے ہیں

تیغ کھینچی ہے قتل پر میرے
ہاتھ مجھ سے اٹھائے بیٹھے ہیں

میں شکایت جفا کی کرتا ہوں
چپکے وہ سر جھکائے بیٹھے ہیں

دم چرائے ہوئے پڑے ہیں ہم
وہ جو بالیں پہ آئے بیٹھے ہیں

امتحاں کو کہا تو بولے وہ
ہم تمہیں آزمائے بیٹھے ہیں

کس کو نظروں سے آج اتاریں گے
کیوں وہ تیوری چڑھائے بیٹھے ہیں

دیکھیے کب وہ شمع رو آئے
شام سے لو لگائے بیٹھے ہیں

ٹالنا وصل کا جو ہے منظور
خود سے خود منہ تھوتھائے بیٹھے ہیں

سادہ پن میں ہزار جوبن ہے
بال کھولے نہائے بیٹھے ہیں

کون پہلو سے اٹھ گیا انجمؔ
آپ کیوں دل دبائے بیٹھے ہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A2%D8%AC_%D9%85%DB%81%D9%86%D8%AF%DB%8C_%D9%84%DA%AF%D8%A7%D8%A6%DB%92_%D8%A8%DB%8C%D9%B9%DA%BE%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA