Jump to content

آئے ہیں فاتحہ کو وہ گیسو سنوار کے

From Wikisource
آئے ہیں فاتحہ کو وہ گیسو سنوار کے (1930)
by نشتر چھپروی
324075آئے ہیں فاتحہ کو وہ گیسو سنوار کے1930نشتر چھپروی

آئے ہیں فاتحہ کو وہ گیسو سنوار کے
چمکے نصیب آج ہمارے مزار کے

دیکھو کرشمے رحمت پروردگار کے
کیا آڑے آئی حشر میں مجھ شرمسار کے

تصویر بن گئے ہیں وہ ذکر وصال پر
قربان جائیے نگۂ شرمسار کے

رونے لگے وہ دیکھ کے حال زبوں مرا
احسان مجھ پہ ہیں ستم روزگار کے

تسکین خاک بادۂ کوثر سے ہو انہیں
جن کو مزے ہوں یاد مے خوش گوار کے

کہتے نہ تھے کہ آپ تغافل نہ کیجئے
اب کیوں گلے ہیں نالۂ بے اختیار کے

سونے دے شور حشر ذرا چین سے ہمیں
جاگے ہوئے بہت ہیں شب انتظار کے

ہشیار کر دیا کسی غفلت شعار کو
ممنون ہم ہیں نالۂ بے اختیار کے

صیاد بال و پر مرے اب کاٹتا ہے کیوں
دن تو گزر چکے ہیں ستم گر بہار کے

جھنجھلا کے بول اٹھے کہ لے رکھ تو اپنا دل
جھگڑے مجھے پسند نہیں بار بار کے

آئینہ لے کے زلف گرہ گیر دیکھ لیں
پوچھیں سبب نہ آپ مرے انتشار کے

سرگرم سیر وہ ہیں ادھر لالہ زار میں
لالے ادھر پڑے ہیں دل داغدار کے

شامت سوار ہو نہ کہیں تجھ پہ واعظا
یوں پیچھے تو پڑا ہے جو ہر بادہ خوار کے

بے اختیار پہلوئے دشمن سے وہ اٹھے
تھے شعبدے یہ نالۂ بے اختیار کے

نشترؔ تمہارا ضبط فغاں بے سبب نہیں
عاشق ضرور تم ہو کسی پردہ دار کے


This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.