آئے ہیں بادہ نوش بڑی آن بان پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئے ہیں بادہ نوش بڑی آن بان پر  (1922) 
by پیر شیر محمد عاجز

آئے ہیں بادہ نوش بڑی آن بان پر
میلہ لگا ہے پیر مغاں کی دکان پر

ساقی عطا ہو اب مجھے ساغر شراب کا
چھائی ہوئی ہے کیسی گھٹا آسمان پر

روتے ہیں تیرے عشق میں اے رشک ماہ جب
کرتے ہیں لوگ خندہ ہماری فغان پر

پیدا ہوا اثر نہ کبھی میری آہ میں
کھایا نہ اس نے رحم کبھی بے زبان پر

اے کاش یہ نصیب کریں اتنی یاوری
پہنچوں کبھی میں شب کو تمہارے مکان پر

کس شان سے وہ آج گئے ہیں عدو کے گھر
مجھ سے بگڑ کے پہنچے ہیں وہ آسمان پر

اللہ شب فراق میں وہ آہ و زاریاں
ہر وقت صدمے کیسے ہیں مجھ نیم جان پر

لکھا جو خط شوق انہیں میں نے ہجر میں
رونے لگے رقیب بھی میرے بیان پر

یا رب ترے ہی فضل کا امیدوار ہوں
کھاتا نہیں ہے رحم کوئی ناتوان پر

ہر دم ترے فراق میں پھرتا ہوں سو بہ سو
لاکھوں بلائیں آتی ہیں عاجزؔ کی جان پر


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A2%D8%A6%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA_%D8%A8%D8%A7%D8%AF%DB%81_%D9%86%D9%88%D8%B4_%D8%A8%DA%91%DB%8C_%D8%A2%D9%86_%D8%A8%D8%A7%D9%86_%D9%BE%D8%B1