یہ ہوا مآل حباب کا جو ہوا میں بھر کے ابھر گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ ہوا مآل حباب کا جو ہوا میں بھر کے ابھر گیا
by نظم طباطبائی

یہ ہوا مآل حباب کا جو ہوا میں بھر کے ابھر گیا
کہ صدا ہے لطمۂ موج کی سر پر غرور کدھر گیا

مجھے جذب دل نے اے جز بہک کے رکھا قدم کوئی
مجھے پر لگائے شوق نے کہیں تھک کے میں جو ٹھہر گیا

مجھے پیری اور شباب میں جو ہے امتیاز تو اس قدر
کوئی جھونکا باد سحر کا تھا مرے پاس سے جو گزر گیا

اثر اس کے عشوۂ ناز کا جو ہوا وہ کس سے بیاں کروں
مجھے تو اجل کی ہے آرزو اسے وہم ہے کہ یہ مر گیا

تجھے اے خطیب چمن نہیں خبر اپنے خطبۂ شوق میں
کہ کتاب گل کا ورق ورق تری بے خودی سے بکھر گیا

کسے تو سناتا ہے ہم نشیں کہ ہے عشوۂ دشمن عقل و دیں
ترے کہنے کا ہے مجھے یقیں میں ترے ڈرانے سے ڈر گیا

کروں ذکر کیا میں شباب کا سنے کون قصہ یہ خواب کا
یہ وہ رات تھی کہ گزر گئی یہ وہ نشہ تھا کہ اتر گیا

دل ناتواں کو تکان ہو مجھے اس کی تاب نہ تھی ذرا
غم انتظار سے بچ گیا تھا نوید وصل سے مر گیا

مرے صبر و تاب کے سامنے نہ ہجوم خوف و رجا رہا
وہ چمک کے برق رہ گئی وہ گرج کے ابر گزر گیا

مجھے بحر غم سے عبور کی نہیں فکر اے مرے چارہ گر
نہیں کوئی چارہ کار اب مرے سر سے آب گزر گیا

مجھے راز عشق کے ضبط میں جو مزہ ملا ہے نہ پوچھیے
مے انگبیں کا یہ گھونٹ تھا کہ گلے سے میرے اتر گیا

نہیں اب جہان میں دوستی کبھی راستے میں جو مل گئے
نہیں مطلب ایک کو ایک سے یہ ادھر چلا وہ ادھر گیا

اگر آ کے غصہ نہیں رہا تو لگی تھی آگ کہ بجھ گئی
جو حسد کا جوش فرو ہوا تو یہ زہر چڑھ کے اتر گیا

تجھے نظمؔ وادئ شوق میں عبث احتیاط ہے اس قدر
کہیں گرتے گرتے سنبھل گیا کہیں چلتے چلتے ٹھہر گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse