یہ گوارا کہ مرا دست تمنا باندھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ گوارا کہ مرا دست تمنا باندھے
by ریاض خیرآبادی

یہ گوارا کہ مرا دست تمنا باندھے
اپنی محرم کو نہ کس کر کوئی اتنا باندھے

بڑھ کے آئے نگہ شوق بلائیں لے لے
کوئی بیٹھا ہے کس انداز سے جوڑا باندھے

شہرت بے اثری کوئی مٹائے کیوں کر
ہو نہ درد آہ میں تو کوئی ہوا کیا باندھے

دھجیاں کیا مرے دامن کی مرے کام آئیں
بیٹھ کر دشت میں سب آبلۂ پا باندھے

ہے بری بات کہو کھول کے بوتل رکھ دے
شیخ پگڑی میں نہ بازار کا سودا باندھے

اک ذرا کھا لے ہوا نجد کی ٹھنڈی ٹھنڈی
کہہ دو لیلیٰ ابھی محمل میں نہ پردا باندھے

بکھری زلفیں یوں ہی لہرائیں رخ روشن پر
کبھی جوڑا نہ مرا گیسوؤں والا باندھے

جب میں دیکھوں مری آنکھوں میں مرا گھر پھر جائے
چکر اتنا تو بیاباں میں بگولا باندھے

ہم نے دیکھا طرف میکدہ جاتے تھے ریاضؔ
اک عصا تھامے عبا پہنے عمامہ باندھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse