Jump to content

یہ کیا کہ ان کے دل کو نہ زنہار توڑیئے

From Wikisource
یہ کیا کہ ان کے دل کو نہ زنہار توڑیئے
by انشاء اللہ خان انشا
294563یہ کیا کہ ان کے دل کو نہ زنہار توڑیئےانشاء اللہ خان انشا

یہ کیا کہ ان کے دل کو نہ زنہار توڑیئے
سو بار جا کے جوڑئیے سو بار توڑیئے

آؤ نہ مل کے بیٹھے ہیں بے شغل ہم سو کیوں
کٹ کیجے ان سے یاری اب اے یار توڑیئے

ہاتھ آوے کچھ اگر نہ سرشتہ بگاڑ کا
تو لڑ کے ان کی موتیوں کا ہار توڑیئے

یا چھیڑ چھاڑ کے لیے اک سنگ فرش سے
دس پانچ ان کے رخنۂ دیوار توڑیئے

یا لال چوری ڈالیوں کو توڑ تاڑ پر
رغبت سے ایک غنچۂ گلنار توڑیئے

شوخی تو دیکھو آج یہی قصد ہے کہ خیر
جس ڈھب سے ہووے خاطر دل دار توڑیئے

وہ کچھ کہیں پر اپنی ہے بس گائے جائیے
اور تان ادھر کو کوئی طرح دار توڑیئے

یا کود پھاند چول بھی ان کے پلنگ کے
بس ہو کے لڑنے بھڑنے کو تیار توڑیئے

پھول ان کی کیاریوں سے کسی اور روپ کا
کچھ کر کے بات چیت کے تکرار توڑیئے

سبزے کو روند ڈالئے یا ان کے باغ کے
نارنگیاں ہی چپکے سے دو چار توڑیئے

انشاؔ یہ روٹھ راٹھ ہی اک تاؤ بھاؤ کے
اس توڑ جوڑ کا نہ کبھی تار توڑیئے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.