یہ کیا لطف شور فغاں رہ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ کیا لطف شور فغاں رہ گیا
by قربان علی سالک بیگ

یہ کیا لطف شور فغاں رہ گیا
زمیں رہ گئی آسماں رہ گیا

ابھی نامہ بر کو روانہ کیا
ابھی کہہ رہا ہوں کہاں رہ گیا

ترے لطف نے کی یہاں تک کمی
جو پہلے یقیں تھا گماں رہ گیا

ملے خاک میں یوں کہ مشہور ہے
مٹے یوں کہ مٹنا نشاں رہ گیا

وہی گردشیں ہیں وہی چال ہے
ستم کون سا آسماں رہ گیا

رہی آشنائی فقط نام کی
وہ نام آشنائے زباں رہ گیا

میں واماندہ اور کہہ رہا ہے جرس
رہا جو پس کارواں رہ گیا

مرا نالہ برق جہاں سوز ہے
اگر یوں ہی آتش فشاں رہ گیا

بہت دور پہنچیں نگاہیں ولے
وہ پردے میں اب بھی نہاں رہ گیا

یہ کاہل ہوں سالکؔ غم ہجر سے
وہیں کا رہا میں جہاں رہ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse