یہ کہہ کے رخنہ ڈالئے ان کے حجاب میں
Appearance
یہ کہہ کے رخنہ ڈالئے ان کے حجاب میں
اچھے برے کا حال کھلے گا نقاب میں
یا رب وہ خواب حق میں مرے خواب مرگ ہو
آئے وہ مست خواب اگر میرے خواب میں
تحقیق ہو تو جانوں کہ میں کیا ہوں قیس کیا
لکھا ہوا ہے یوں تو سبھی کچھ کتاب میں
میں اور ذوق بادہ کشی لے گئیں مجھے
یہ کم نگاہیاں تری بزم شراب میں
ہیں دونوں مثل شیشہ پہ سامان صد شکست
جیسا ہے میرے دل میں نہیں ہے حباب میں
یہ عمر اور عشق ہے آزردہؔ جائے شرم
حضرت یہ باتیں پھبتی تھیں عہد شباب میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |