یہ کہہ کے رخنہ ڈالئے ان کے حجاب میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ کہہ کے رخنہ ڈالئے ان کے حجاب میں
by مفتی صدر الدین خان آزردہ

یہ کہہ کے رخنہ ڈالئے ان کے حجاب میں
اچھے برے کا حال کھلے گا نقاب میں

یا رب وہ خواب حق میں مرے خواب مرگ ہو
آئے وہ مست خواب اگر میرے خواب میں

تحقیق ہو تو جانوں کہ میں کیا ہوں قیس کیا
لکھا ہوا ہے یوں تو سبھی کچھ کتاب میں

میں اور ذوق بادہ کشی لے گئیں مجھے
یہ کم نگاہیاں تری بزم شراب میں

ہیں دونوں مثل شیشہ پہ سامان صد شکست
جیسا ہے میرے دل میں نہیں ہے حباب میں

یہ عمر اور عشق ہے آزردہؔ جائے شرم
حضرت یہ باتیں پھبتی تھیں عہد شباب میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse