یہ کہاں لگی یہ کہاں لگی جو قفس سے شور فغاں اٹھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ کہاں لگی یہ کہاں لگی جو قفس سے شور فغاں اٹھا
by ریاض خیرآبادی

یہ کہاں لگی یہ کہاں لگی جو قفس سے شور فغاں اٹھا
جلے آشیانے کچھ اس طرح کہ ہر ایک دل سے دھواں اٹھا

لگی آگ میرے جگر میں یوں نہ لگے کسی کے بھی گھر میں یوں
نہ تو لو اٹھی نہ چمک ہوئی نہ شرر اڑے نہ دھواں اٹھا

کوئی مست مے کدہ آ گیا مے بے خودی وہ پلا گیا
نہ صدائے نغمۂ دیر اٹھی نہ حرم سے شور اذاں اٹھا

گئے ساتھ شیخ حرم کے ہم نہ کوئی ملا نہ لئے قدم
نہ تو خم بڑھا نہ سبو جھکا جو اٹھا تو پیر مغاں اٹھا

لب خم سے نکلے صدائے قم سردوش ایسے ہزار خم
خم آسماں بھی ہو جس میں گم وہ سیاہ ابر کہاں اٹھا

تجھے مئے فروش خبر بھی ہے کہ مقام کون ہے کیا ہے شے
یہ رہ حرم میں دکان مے تو یہاں سے اپنی دکاں اٹھا

یہ سپید ریش ریاضؔ ہے جو بنا ہے بزم میں پند گو
اسے کیوں نہ ابر سیہ کہوں کہ برس پڑا یہ جہاں اٹھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse