یہ کہاں سے ہم گئے ہیں کہاں کہیں کیا تری تگ و تاز میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ کہاں سے ہم گئے ہیں کہاں کہیں کیا تری تگ و تاز میں
by ریاض خیرآبادی

یہ کہاں سے ہم گئے ہیں کہاں کہیں کیا تری تگ و تاز میں
کہ یہ آسمان و زمیں جہاں نہ نشیب میں نہ فراز میں

تو درون خانہ برون در تو ہزار پردوں میں جلوہ گر
ارے او حقیقت پردہ ور تری شوخیاں میں مجاز میں

وہی آئے عرش سے فرش تک وہی چھائے فرش سے عرش تک
ملے ایسے ذرے ہزارہا ہمیں خاک راہ مجاز میں

کہیں تیز ہے کہیں نرم ہے یہی آنچ مطرب خوشنوا
مرے نالے میں ترے نغمے میں مرے سوز میں ترے ساز میں

ترے سجدے میں وہ مزا ملا کہ تڑپ کے سینے سے آ رہا
کوئی داغ ہے کہ ہے دل مرا یہ مری جبین نیاز میں

یہ اڑائیں گے کبھی رنگ بھی یہ دکھائیں گے کبھی رنگ بھی
یہی لائیں گے کبھی رنگ بھی جو رنگیں ہیں رنگ مجاز میں

گھڑی جس کی حشر کا ایک دن شب گور جس کا ہر ایک پل
وہ مزے ہیں حسرت مرگ میں جو خضر کی عمر دراز میں

اسے لاگ عشق کی کہتے ہیں اسے آگ عشق کی کہتے ہیں
نہ جنون ہے یہ جنون میں نہ کوئی یہ راز ہے راز میں

جنہیں لوگ کہتے ہیں دزد مے وہ خدا پرست ریاضؔ ہیں
یہ سنا ہے کل کہ جناب ہی پس خم تھے محو نماز میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse