یہ کس کی جستجو ہے اور میں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ کس کی جستجو ہے اور میں ہوں
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

یہ کس کی جستجو ہے اور میں ہوں
مقام دشت ہو ہے اور میں ہوں

چمن میں دیکھتا پھرتا ہوں کس کو
فریب رنگ و بو ہے اور میں ہوں

بروز حشر تازہ گل کھلے گا
وہ دامن کا لہو ہے اور میں ہوں

کبھی دیوانہ تھا پر اب ہوں ہشیار
گریباں کا رفو ہے اور میں ہوں

حماقت حضرت واعظ کی دیکھو
تقاضائے وضو ہے اور میں ہوں

نہ پوچھو دل میں کیا کیا حسرتیں ہیں
تمہاری آرزو ہے اور میں ہوں

بھلا ہو تشنہ کامی اور تیرا
مے و جام و سبو ہے اور میں ہوں

رہوں گا کہہ کے دل کا ماجرا سب
ارے محشر میں تو ہے اور میں ہوں

وہ کہتے ہیں کہو اے شوقؔ کیا ہے
ارے خلوت ہے تو ہے اور میں ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse