Jump to content

یہ کس سے چاندنی میں ہم بہ زیر آسماں لپٹے

From Wikisource
یہ کس سے چاندنی میں ہم بہ زیر آسماں لپٹے
by انشاء اللہ خان انشا
294564یہ کس سے چاندنی میں ہم بہ زیر آسماں لپٹےانشاء اللہ خان انشا

یہ کس سے چاندنی میں ہم بہ زیر آسماں لپٹے
کہ باہم عرش پر مارے خوشی کے قدسیاں لپٹے

حدی خواں وادئ مجنوں میں ناقہ کو نہ لے جانا
مبادا اک بگولا سا بہ پائے سارباں لپٹے

ادب گر حضرت جبریل کا مانع نہ ہو مجھ کو
تو شاخ سدرہ سے میرے یہ آہ ناتواں لپٹے

سکندر اور دارا کیا کروڑوں اور بھی ان سے
پڑے ہیں گور کے تختہ سے زیر خاکداں لپٹے

کسی ڈھب سے طبیعت سیر ہوتی ہی نہیں ان سے
ابھی دالان سے لائے بہ زیر سائباں لپٹے

ہنسے بولے رہے مشغول اپنے جس طرح چاہا
ادھر لپٹے ادھر سوئے یہاں چمٹے وہاں لپٹے

ولیکن پاس کہتی ہے کہ ہوں گی خواب کی باتیں
تمہیں کچھ خیر ہے صاحب بتاؤ تو جہاں لپٹے

کدھر لوٹے کدھر پوٹے ہنسے بولے کدھر جا کر
کہاں لپٹے کہاں سوئے کہاں چمٹے کہاں لپٹے

غزل مستی میں لکھ اک اور بھی انشاؔ کہ تا تیرے
بلائیں آ کے ساقی لے تجھے پیر مغاں لپٹے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.