یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے
by حیدر علی آتش

یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے
زمیں یاں کی چہارم آسماں ہے

خدا پنہاں ہے عالم آشکارا
نہاں ہے گنج ویرانہ عیاں ہے

دل روشن ہے روشن گر کی منزل
یہ آئینہ سکندر کا مکاں ہے

تکلف سے بری ہے حسن ذاتی
قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے

پسیجے گا کبھی تو دل کسی کا
ہمیشہ اپنی آہوں کا دھواں ہے

برنگ بو ہوں گلشن میں میں بلبل
بغل غنچے کے میرا آشیاں ہے

شگفتہ رہتی ہے خاطر ہمیشہ
قناعت بھی بہار بے خزاں ہے

چمن کی سیر پر ہوتا ہے جھگڑا
کمر میری ہے دست باغباں ہے

بہت آتا ہے یاد اے صبر مسکیں
خدا خوش رکھے تجھ کو تو جہاں ہے

الٰہی ایک دل کس کس کو دوں میں
ہزاروں بت ہیں یاں ہندوستاں ہے

یقیں ہوتا ہے خوشبوئی سے اس کے
کسی گل رو کا غنچہ عطرداں ہے

وطن میں اپنے اہل شوق کی طرح
سفر میں روز و شب ریگ رواں ہے

سحر ہووے کہیں شبنم کرے کوچ
گل و بلبل کا دریا درمیاں ہے

سعادت مند قسمت پر ہیں شاکر
ہما کو مغز بادام استخواں ہے

دل بے تاب جو اس میں گرے ہیں
ذقن جاناں کا پارہ کا کنواں ہے

جرس کے ساتھ دل رہتے ہیں نالاں
مرے یوسف کا عاشق کارواں ہے

نہ کہہ رندوں کو حرف سخت واعظ
درشت اہل جہنم کی زباں ہے

قد محبوب کو شاعر کہیں سرو
قیامت کا یہ اے آتشؔ نشاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse