یہ کافر بت جنہیں دعویٰ ہے دنیا میں خدائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ کافر بت جنہیں دعویٰ ہے دنیا میں خدائی کا
by ریاض خیرآبادی

یہ کافر بت جنہیں دعویٰ ہے دنیا میں خدائی کا
ملیں محشر میں مجھ عاصی کو صدقہ کبریائی کا

یہ مجھ سے سخت جاں پر شوق خنجر آزمائی کا
خدا حافظ مرے قاتل تری نازک کلائی کا

نہ ہو پہلو میں میرے دل تو کوئی بات کیوں پوچھے
یہی تو اک ذریعہ ہے حسینوں تک رسائی کا

تم اچھے غیر اچھا غیر کی تقدیر بھی اچھی
یہ آخر ذکر کیوں ہے میری قسمت کی برائی کا

وہ کیا سوئیں گے غافل ہو کے شب بھر مرے پہلو میں
انہیں یہ فکر ہے نکلے کوئی پہلو لڑائی کا

ہزاروں دیدہ و دل بام لاکھوں طور سے بڑھ کر
کروڑوں جلوہ گاہیں شوق تو ہو خود نمائی کا

قفس میں اب کہاں وہ انبساط صبح آزادی
چمن تک لطف تھا صیاد میری خوشنوائی کا

اشارے پر ترے چل کر یہ لائے رنگ مشکل ہے
ابھی محتاج ہے خنجر ترے دست حنائی کا

کوئی کیا جائے جنت میں کہ اس نے طول کھینچا ہے
قیامت پر بھی سایہ پڑ گیا روز جدائی کا

وہ دن بھی آئے ہم ہوں اور گلیاں ہوں مدینے کی
گدایانہ صدا ہو ہاتھ میں کاسہ گدائی کا

بنائی کیا بری گت مے کدے میں بادہ نوشوں نے
ریاضؔ آئے تھے کل جامہ پہن کر پارسائی کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse