یہ چھپکے کا جو بالا کان میں اب تم نے ڈالا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ چھپکے کا جو بالا کان میں اب تم نے ڈالا ہے
by نظیر اکبر آبادی

یہ چھپکے کا جو بالا کان میں اب تم نے ڈالا ہے
اسی بالے کی دولت سے تمہارا بول بالا ہے

نزاکت سر سے پاؤں تک پڑی قربان ہوتی ہے
الٰہی اس بدن کو تو نے کس سانچے میں ڈھالا ہے

یہ دل کیوں کر نگہ سے اس کی چھدتے ہیں میں حیراں ہوں
نہ خنجر ہے نہ نشتر ہے نہ جمدھر ہے نہ بھالا ہے

بلائیں ناگ کالے ناگنیں اور سانپ کے بچے
خدا جانے کہ اس جوڑے میں کیا کیا باندھ ڈالا ہے

نہ غول آتا ہے خوباں کا سرک اے دل میں کہتا ہوں
یہ کمپو کی نہیں پلٹن یہ پریوں کا رسالا ہے

جسے تم لے کے بیدردی سے پاؤں میں کچلتے ہو
یہ دل میں نے تو اے صاحب بڑی محنت سے پالا ہے

نظیرؔ اک اور لکھ ایسی غزل جو سن کے جی خوش ہو
اری اس ڈھب کی باتوں نے تو دل میں شور ڈالا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse