یہ پیچ و تاب میں شبِ غم بے حواسیاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ پیچ و تاب میں شبِ غم بے حواسیاں
by مصطفٰی خان شیفتہ

یہ پیچ و تاب میں شبِ غم بے حواسیاں
اے دل! خیالِ طرہ تابیدہ مو نہیں

دستِ جنوں نے جامہ ہستی قبا کیا
اب ہائے چارہ گر کو خیالِ رفو نہیں

شکرِ ستم بھی راس نہ آیا ہمیں کہ اب
کہتے ہیں وہ کہ لائقِ الطاف تو نہیں

ہرجائی اپنے وحشی کو منہ سے یہ کہتے ہو
کیا آپ کا نشانِ قدم کو بکو نہیں

نیرنگیوں نے تیری یہ حالت تغیر کی
امید زندگی کی کبھو ہے، کبھو نہیں

کیا ہو سکے کسی سے علاج اپنا شیفتہ
اس گل پہ غش ہیں جس میں محبت کی بو نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse