یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے
by نسیم دہلوی

یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے
تم تو کیا ہو آسماں ہل جائیں گے

عشق میں اک پیر دیرینہ ہوں میں
مجھ کو ناصح آ کے کیا سمجھائیں گے

حضرت دل سوچتے ہیں آج کچھ
پھر بلا کوئی مقرر لائیں گے

اس توقع پر اٹھاتے ہیں ستم
کچھ تو سمجھیں گے کبھی شرمائیں گے

پھینک دیں گے دل کو پہلو چیر کر
آپ دیکھیں کس طرح لے جائیں گے

حال دل کہتے ہیں جو کچھ ہو سو ہو
دیکھیے وہ آج کیا فرمائیں گے

پھر نہ چونکیں گے قیامت تک نسیمؔ
پاؤں جس دن قبر میں پھیلائیں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse