یہ مشت خاک اپنے کو جہاں چاہے تہاں لے جا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ مشت خاک اپنے کو جہاں چاہے تہاں لے جا
by قاسم علی خان آفریدی

یہ مشت خاک اپنے کو جہاں چاہے تہاں لے جا
پر اس عالم کو اس عالم سے مت بار گراں لے جا

عدم سے جس طرح تنہا چلا آیا تھا پھر واں کو
مناسب ہے اسی صورت سے صورت چھوڑ جاں لے جا

کدورت ماسوا کی دھو لے خاطر خواہ خاطر سے
بجز نام خدا ہم راہ مت نام و نشاں لے جا

عزیز و اقربا نے مال و ملکیت بکار آوے
کسی کی دوستی کی اے دلا حسرت نہ واں لے جا

گدائی بادشاہی بھی مساوی وقت مرنے کے
تیقن کر سخن میری پر ہرگز مت گماں لے جا

اسی دنیا میں دنیا سے کنارہ کر جو عاقل ہے
محبت پھر کسی شے کی نہ ساتھ اے مہرباں لے جا

نہ کوئی لے گیا کچھ اور نہ لے جاوے کوئی ہرگز
یقیں گور و کفن ملنے پہ کیا تشکیک ہاں لے جا

گئی باغ جہاں سے خلق خالی ہاتھ لے پر تو
بہار زندگی سے ذکر کا گل بے خزاں لے جا

بکھیڑا یاں کا یاں پر چھوڑ افریدیؔ عدم آخر
نہ یہ درد و بلا رنج و الم آہ و فغاں لے جا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse