یہ محو ہوئے دیکھ کے بے ساختہ پن کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ محو ہوئے دیکھ کے بے ساختہ پن کو
by حیرت الہ آبادی

یہ محو ہوئے دیکھ کے بے ساختہ پن کو
آئینے میں خود چوم لیا اپنے دہن کو

کرتی ہے نیا روز مرے داغ کہن کو
غربت میں خدا یاد دلائے نہ وطن کو

چھوڑا وطن آباد کیا ملک دکن کو
تقدیر کہاں لے گئی یاران وطن کو

کیا لطف ہے جب مونس و یاور نہ ہو کوئی
ہم وادئ غربت ہی سمجھتے ہیں وطن کو

مرجھائے پڑے تھے گل مضمون ہزاروں
شاداب کیا ہم نے گلستان سخن کو

خدمت میں تری نذر کو کیا لائیں بہ جز دل
ہم رند تو کوڑی نہیں رکھتے ہیں کفن کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse