یہ محبت کی جوانی کا سماں ہے کہ نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ محبت کی جوانی کا سماں ہے کہ نہیں
by اختر انصاری اکبرآبادی

یہ محبت کی جوانی کا سماں ہے کہ نہیں
اب مرے زیر قدم کاہکشاں ہے کہ نہیں

دامن رند بلا نوش کو دیکھ اے ساقی
پرچم خواجگئ کون و مکاں ہے کہ نہیں

مسکراتے ہوئے گزرے تھے ادھر سے کچھ لوگ
آج پر نور گذر گاہ زماں ہے کہ نہیں

حسن ہی حسن ہے گلزار جنوں میں رقصاں
عشق کا عالم صد رنگ جواں ہے کہ نہیں

راہ پر آ ہی گئے آج بھٹکنے والے
راہبر دیکھ وہ منزل کا نشاں ہے کہ نہیں

لاکھ گرداب و تلاطم سے گزر کر اے دوست
اب سفینہ مرا ساحل پہ رواں ہے کہ نہیں

تذکرے اپنے ہر اک بزم میں ہیں اے اخترؔ
آج مہمل سی حدیث دگراں ہے کہ نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse