یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج  (1933) 
by راج بہادر سکسینہ اوجؔ

یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج
ڈوبی ہوئی آئے ہے پسینوں میں سحر آج

بے وجہ نہیں فطرت شوخی کا گزر آج
تم آنکھ ملا کر جو چراتے ہو نظر آج

وہ آئے عیادت کو تو آئی ہے قضا بھی
مہماں ہوئے اک وقت میں دو دو مرے گھر آج

ارمان نکلنے دیے کس سوختہ دل کا
ہے وصل کی شب بول نہ اے مرغ سحر آج

وہ کعبۂ دل توڑتے ہیں سنگ جفا سے
برباد ہوا جاتا ہے اللہ کا گھر آج

ہر اشک کے دامن میں ہے اک منظر طوفاں
کیا ڈوب ہی جائے گی یہ کشتئ نظر آج

ڈوبی ہوئی نبضیں یہ پتہ دیتی ہیں مجھ کو
اے اوجؔ نہ ہوگی شب فرقت کی سحر آج

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse