Jump to content

یہ غلط ہے اے دل بد گماں کہ وہاں کسی کا گزر نہیں

From Wikisource
یہ غلط ہے اے دل بد گماں کہ وہاں کسی کا گزر نہیں
by عزیز لکھنوی
317968یہ غلط ہے اے دل بد گماں کہ وہاں کسی کا گزر نہیںعزیز لکھنوی

یہ غلط ہے اے دل بد گماں کہ وہاں کسی کا گزر نہیں
فقط اس لیے یہ حجاب ہے کہ کسی کو تاب نظر نہیں

کہو کچھ حقیقت مشتہر کہ مجھے کہیں کی خبر نہیں
یہ مناظر دو جہاں ہیں کیا جو فریب ذوق نظر نہیں

کسی آہ میں نہیں سوز جب کسی نالے میں جب اثر نہیں
یہ کمال سوزش دل نہیں یہ فروغ داغ جگر نہیں

چمک اٹھ رہی ہے جو پے بہ پے یہ تجلیوں کا خزانہ ہے
یہ ہجوم برق تپاں نہیں یہ متاع درد جگر نہیں

یہ ہے اہتمام حجاب کیوں یہ ہے بند و بست نقاب کیوں
تمہیں آنکھ بھر کے میں دیکھ لوں وہ نظر نہیں وہ جگر نہیں

وہ رہین لذت غم ہوں میں نہ ملی ازل میں جسے طرب
میں ہی اس کرم کا تھا منتظر میں ہی مستحق تھا مگر نہیں

کبھی وقت ناز و نیاز ہے کبھی محو زلف ایاز ہے
مگر اس پہ بھی دل غزنوی کرم آشنائے نظر نہیں

یہ تعینات نظام تھے فقط ایک پردۂ ماسوا
خبر اس کی جب سے ہوئی مجھے کوئی اس جہاں کی خبر نہیں

تجھے کارگاہ فنا بتا انہی ہستیوں پہ غرور ہے
جو شریک سود و زیاں نہیں جو رہین نفع و ضرر نہیں

چمک اے چراغ ضمیر اب کہ طلوع مہر کمال ہو
وہ لحد ہوں تیرہ و تار میں کہ جہاں بیاض سحر نہیں

نہ وہ سوز ہے نہ وہ ساز ہے نہ وہ دل خزانۂ راز ہے
وہ شرر ہوں جس میں دھواں نہیں وہ حجر ہوں جس میں شرر نہیں

نظر اس کی ہے مری سمت ابھی مرا دامن گہریں نہ دیکھ
ابھی خون دل ہے رکا ہوا ابھی آنسوؤں سے یہ تر نہیں

چمک اے تجلیٔ دل ربا نکل اے خلاصۂ دعا
کہ نظارۂ دو جہاں فقط یہ مآل ذوق نظر نہیں

یہ جبہ سائی بے محل مجھے شب کو دے رہی تھی خبر
نہ مٹا دے ظلمت دہر جو وہ نشان سجدۂ در نہیں

یہ تغیرات جہاں نہیں اثر تلون طبع ہے
تری اک نظر کا کرشمہ یہ فلک کی گردش سر نہیں

کہو شمع سے کہ یہ نقل کیا کوئی اپنا قصۂ غم کہے
کرے اب فسانے کو مختصر کہ مجھے امید سحر نہیں

ہے تلاش اپنی فقط مجھے میں ملوں تو ہوں گی شکایتیں
مجھے اب کسی سے گلا نہیں مجھے اب کسی کی خبر نہیں

یہی منزلیں ہیں وہ منزلیں کہ جہنم ان سے پناہ لے
دل نا شناس رہ وفا مجھے کوئی خوف و خطر نہیں

مری غفلتوں کا گلا نہ کر یہی نظم کون و فساد ہے
خبر اس طلسم نمود کی مجھے ہو چکی ہے مگر نہیں

سبق اس سے لے کہ خبر ملے تجھے آنے والے زمانے کی
ہے تغیرات کا آئنہ یہ شکستہ کاسۂ سر نہیں

یہ ہیں دار تیری نگاہ کے کسی ناتواں سے رکیں گے کیا
دل داغ داغ عزیزؔ ہے ستم آزما یہ سپر نہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.