یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے
by اصغر گونڈوی

یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے ذرہ میں بیاباں ہے

ہے عشق کہ محشر میں یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے فردوس بہ داماں ہے

ہے عشق کی شورش سے رعنائی و زیبائی
جو خون اچھلتا ہے وہ رنگ گلستاں ہے

پھر گرم نوازش ہے ضو مہر درخشاں کی
پھر قطرۂ شبنم میں ہنگامۂ طوفاں ہے

اے پیکر محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدۂ حیراں ہے

سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں ہے

اک شورش بے حاصل اک آتش بے پردا
آفت کدۂ دل میں اب کفر نہ ایماں ہے

دھوکا ہے یہ نظروں کا بازیچہ ہے لذت کا
جو کنج قفس میں تھا وہ اصل گلستاں ہے

اک غنچۂ افسردہ یہ دل کی حقیقت تھی
یہ موجزنی خوں کی رنگینئ پیکاں ہے

یہ حسن کی موجیں ہیں یا جوش تبسم ہے
اس شوخ کے ہونٹوں پر اک برق سی لرزاں ہے

اصغرؔ سے ملے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse