یہ عرض شوق ہے آرائش بیاں بھی تو ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ عرض شوق ہے آرائش بیاں بھی تو ہو
by عابد علی عابد

یہ عرض شوق ہے آرائش بیاں بھی تو ہو
ادا شناس تو ہے آنکھ خونچکاں بھی تو ہو

خدا خفا ہے تو سچے ہیں ناصحان عزیز
ہمارے لب پہ کبھی شکوۂ بتاں بھی تو ہو

یہ رنگ و نکہت و ترکیب و لفظ خیرہ سری
ز راہ دیدہ بہ دل موج خوں رواں بھی ہو

ہمیں بھی نغمہ گری پر ہے ناز بات تو کر
ہمیں بھی جاں نہیں پیاری ہے امتحاں بھی تو ہو

ابھی تو ہوں در و دیوار ہی سے محو کلام
حریف دولت غم کوئی راز داں بھی تو ہو

قتیل ناز ہوں اے وائے اعتماد وفا
وہ التفات کرے پہلے بد گماں بھی تو ہو

کسی کو ان سے محبت کسی کو مجھ سے حسد
ملیں وہ مجھ سے مگر کوئی درمیاں بھی تو ہو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse