یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
by مومن خان مومن

یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

نہ شادی مرگ ہوں کیوں کر ہے مژدہ قتل دشمن کا
کہ گھر میں سے لیے شمشیر وہ روتا نکل آیا

ستم اے گرمی ضبط فغان و آہ چھاتی پر
کبھو بس پڑ گیا چھالا کبھو پھوڑا نکل آیا

کیا زنجیر مجھ کو چارہ گر نے کن دنوں میں جب
عدو کی قید سے وہ شوخ بے پروا نکل آیا

نکل آیا اگر آنسو تو ظالم مت نکال آنکھیں
سنا معذور ہے مضطر نکل آیا نکل آیا

ہمارے خوں بہا کا غیر سے دعویٰ ہے قاتل کو
یہ بعد انفصال اب اور ہی جھگڑا نکل آیا

ہوئی بلبل ثنا خوان دہان تنگ کس گل کی
کہ فروردی میں غنچہ کا منہ اتنا سا نکل آیا

کوئی تیر اس کا دل میں رہ گیا تھا کیا کہ آنکھوں سے
ابھی رونے میں اک پیکان کا ٹکڑا نکل آیا

دم بسمل یہ کس کے خوف سے ہم پی گئے آنسو
کہ ہر زخم بدن سے خون کا دریا نکل آیا

خدنگ یار کے ہم راہ نکلی جان سینے سے
یہی ارمان اک مدت سے جی میں تھا نکل آیا

بہت نازاں ہے تو اے قیس پر وحشت دکھاؤں گا
کتابوں میں کبھو قصہ جو مومنؔ کا نکل آیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.