یہ عجب تم نے نکالا سونا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ عجب تم نے نکالا سونا
by نظام رامپوری

یہ عجب تم نے نکالا سونا
رات کا جاگنا دن کا سونا

بخت خفتہ سے تو امید نہیں
ساتھ ہوگا کبھی اس کا سونا

کس قدر ہجر میں بے ہوشی ہے
جاگنا بھی ہے ہمارا سونا

مجھ سے تنگ آ کے یہ بولے شب وصل
یہ ہی تم ہو تو نہ ہوگا سونا

بس دم صبح ستاؤ نہ مجھے
یاد وہ ضد ہے وہ اپنا سونا

لے کے انگڑائی لپٹ جانا ہائے
ہائے وہ ساتھ کسی کا سونا

آپ کروٹ تو ادھر کو لیجیے
جانتا ہوں میں تمہارا سونا

سر کہیں ہاتھ کہیں پاؤں کہیں
یہ نئی دھج ہے نرالا سونا

پھر شب وصل ہو پھر ہو یارب
جاگنا میرا اور ان کا سونا

آنکھیں پھوٹیں جو جھپکتی بھی ہوں
شب تنہائی میں کیسا سونا

وہ کھلی آنکھ وہ لب پر ہے ہنسی
ہم نہیں مانتے ایسا سونا

رات آنکھوں میں گزر جاتی ہے
ان دنوں ہے یہ ہمارا سونا

ہائے وہ وصل کی شب کا عالم
ہائے وہ پچھلے پہر کا سونا

کیا لگے آنکھ جو یاد آئے نظامؔ
رکھ کے زانو پہ سر اس کا سونا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse