یہ سست ہے تو پھر کیا وہ تیز ہے تو پھر کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ سست ہے تو پھر کیا وہ تیز ہے تو پھر کیا
by اکبر الہ آبادی

یہ سست ہے تو پھر کیا وہ تیز ہے تو پھر کیا
نیٹیو جو ہے تو پھر کیا انگریز ہے تو پھر کیا

رہنا کسی سے دب کر ہے امن کو ضروری
پھر کوئی فرقہ ہیبت انگیز ہے تو پھر کیا

رنج و خوشی کی سب میں تقسیم ہے مناسب
بابو جو ہے تو پھر کیا چنگیز ہے تو پھر کیا

ہر رنگ میں ہیں پاتے بندے خدا کے روزی
ہے پینٹر تو پھر کیا رنگریز ہے تو پھر کیا

جیسی جسے ضرورت ویسی ہی اس کی چیزیں
یاں تخت ہے تو پھر کیا واں میز ہے تو پھر کیا

مفقود ہیں اب اس کے سننے سمجھنے والے
میرا سخن نصیحت آمیز ہے تو پھر کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse