یہ سر بہ مہر بوتلیں ہیں جو شراب کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ سر بہ مہر بوتلیں ہیں جو شراب کی
by ریاض خیرآبادی

یہ سر بہ مہر بوتلیں ہیں جو شراب کی
راتیں ہیں ان میں بند ہماری شباب کی

پوچھو نہ ہم سے عالم غفلت کے خواب کی
دنیا کچھ اور ہی تھی ہمارے شباب کی

یہ نشہ آنکھ دیکھ کے اس مست خواب کی
جیسے ابھی چڑھائی ہو بوتل شراب کی

سرخی شفق کی شکل مہ و آفتاب کی
چھلکی ہوئی شراب ہے جام و شراب کی

کیوں ٹوٹتی ہیں بجلیوں پر آج بجلیاں
شاید گرہ کھلی ترے بند نقاب کی

مینا و جام دیکھ کے خوش ہوگا محتسب
سمجھے گا وہ کھلی ہوئی کلیاں گلاب کی

تھی سر بہ مہر پھوٹ گئی اپنے زور میں
توبہ سے پہلے ٹوٹی ہے بوتل شراب کی

شرما گئیں جو بوسۂ لب باغ میں لیا
سمٹی ہیں کیا کھلی ہوئی کلیاں گلاب کی

ہم نے تمام عمر میں کتنی شراب پی
شاید بتا سکے ہمیں میزاں حساب کی

چہرے کا رنگ دیکھ لو تم رکھ کے آئنہ
بوسے سے دوڑ جائے گی سرخی شہاب کی

محفل میں پی جو پھول تو اس احتیاط سے
مینائے مے نے بو نہ کبھی دی شراب کی

اے کثرت گناہ ترے ڈر سے دب گئی
دیکھا مجھے کہ جھک گئی میزاں حساب کی

ذرہ ہوا میں بھر کے بنا آدمی کی شکل
قطرہ ہوا میں بھر کے ہے صورت حباب کی

چکر ہوا نے اتنے دیئے ہیں کہ گرد باد
تصویر بن گیا ہے مرے پیچ و تاب کی

سائے سے اس کی زلف کے بنت عنب کو کیا
بن کر پری اڑے گی یہ بوتل شراب کی

یہ کہہ کے کل دکھائے انہیں پارۂ جگر
بکھری ہوئی یہ پنکھڑیاں ہیں گلاب کی

ہر شام ساتھ لاتی ہے اک چودھویں کا چاند
کیا جانیں کیا کریں گی یہ راتیں شباب کی

کم بخت نے شراب کا ذکر اس قدر کیا
واعظ کے منہ سے آنے لگی بو شراب کی

دو گھونٹ پر شراب کے ہے حصر زندگی
راتیں شباب کی ہیں نہ باتیں شباب کی

کام آئے گی ریاضؔ کے مشق طواف خم
کعبے کے گرد ہوں گے جو سوجھی ثواب کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse