یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا
Appearance
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا
محبت میں جو دل مل جائے پھر کیا ہو نہیں سکتا
شکایت ہو نہیں سکتی کہ شکوا ہو نہیں سکتا
ذرا سا چھیڑ دے کوئی تو پھر کیا ہو نہیں سکتا
برائی کا عوض ہرگز بھلائی ہو نہیں سکتی
برا کہہ کر کسی کو کوئی اچھا ہو نہیں سکتا
ہمارا ان کا قصہ لوگ سنتے ہیں تو کہتے ہیں
مزا ہے حشر تک یکسو یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
کریں تیری شکایت کیا کہ تو اک دوست ہے اپنا
کسی دشمن کا بھی ہم سے تو شکوا ہو نہیں سکتا
الٰہی جذب دل کی اس کشش سے باز آیا میں
کوئی پردہ نشیں کہتا ہے پردہ ہو نہیں سکتا
حفیظؔ ان کی غزل ہے چوٹ کھا بیٹھی ہیں جو دل پر
بغیر اس کے سخن میں لطف پیدا ہو نہیں سکتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |