یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا
by حفیظ جونپوری

یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا
محبت میں جو دل مل جائے پھر کیا ہو نہیں سکتا

شکایت ہو نہیں سکتی کہ شکوا ہو نہیں سکتا
ذرا سا چھیڑ دے کوئی تو پھر کیا ہو نہیں سکتا

برائی کا عوض ہرگز بھلائی ہو نہیں سکتی
برا کہہ کر کسی کو کوئی اچھا ہو نہیں سکتا

ہمارا ان کا قصہ لوگ سنتے ہیں تو کہتے ہیں
مزا ہے حشر تک یکسو یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا

کریں تیری شکایت کیا کہ تو اک دوست ہے اپنا
کسی دشمن کا بھی ہم سے تو شکوا ہو نہیں سکتا

الٰہی جذب دل کی اس کشش سے باز آیا میں
کوئی پردہ نشیں کہتا ہے پردہ ہو نہیں سکتا

حفیظؔ ان کی غزل ہے چوٹ کھا بیٹھی ہیں جو دل پر
بغیر اس کے سخن میں لطف پیدا ہو نہیں سکتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse